نئی دہلی،19؍جون (آئی این ایس انڈیا )راجیہ سبھا کے حالیہ الیکشن کے بعد مودی حکومت ایوان بالا میں اشیاء اور سروس ٹیکس ( جی ایس ٹی) بل کو پاس کرانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔حکومت کے پالیسی سازوں نے راجیہ سبھا کی نئی تصویر کے حساب خاکہ تیار کر لیا ہے۔اس درمیان، کیرل کے وزیر اعلی پی وجین نے جی ایس ٹی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔لیفٹ پارٹیوں کے جی ایس ٹی کی حمایت کے ساتھ ہی کانگریس اس اہم بل پر اب پوری طرح الگ تھلگ پڑ گئی ہے۔اب حکومت کی کوشش جی ایس ٹی کو مانسون سیشن میں پاس کرانے کی ہے۔یا دہوگا کہ راجیہ سبھا کی 58سیٹوں کے لیے 11؍جون کو الیکشن ہوا تھا۔ساتھ ہی حکومت نے اپنی طرف سے 7 اراکین کو نامزد بھی کیاتھا ۔اس کے بعد این ڈی اے راجیہ سبھا میں سب سے بڑا اتحاد بن گیا ہے۔قابل ذکرہے کہ راجیہ سبھا کے کل رکن کی تعداد 245ہے اور چونکہ جی ایس ٹی چونکہ آئینی ترمیمی بل ہے ،لہذا اس کے لیے ووٹنگ کے وقت آدھے اراکین یعنی 123کی موجودگی ضروری ہے۔جبکہ بل منظور کرانے کے لیے دو تہائی یعنی 164اراکین کی حمایت ضروری ہے۔بی جے پی کے پاس اب 54ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ان میں دو نامزد رکن نوجوت سنگھ سدھو اور سبرامنیم سوامی بھی ہیں جو پارٹی میں شامل ہو گئے۔اس کے علاوہ تیلگو دیشم پارٹی کے 6، شرومنی اکالی دل اور شیو سینا کے 3-3، جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کے 2 کرکن این ڈی اے میں ہیں۔سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، بوڈو پیپلز فرنٹ، ناگا پیپلز فرنٹ اور ر پبلک پارٹی آف انڈیا (اٹھاؤلے)کے ایک ایک ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں۔ہریانہ سے منتخب سبھاش چندرا کے ساتھ چار آزاد امیدوارں کی حمایت این ڈی اے کو ملے گا اور 5 نامزد ممبران کا بھی۔اس طرح این ڈی اے کے ممبران کی تعداد 81ہو جاتی ہے۔اب بات کرتے ہیں ان اپوزیشن پارٹیوں کی جو جی ایس ٹی کے حق میں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔راجیہ سبھا کے حالیہ انتخابات کے بعد ان پارٹیوں کی افرادی طاقت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔سماج وادی پارٹی کے 19، آل انڈیا ترنمول کانگریس کے 12، جنتا دل یونائیٹڈ کے 10، بیجو جنتا دل کے 8، بہوجن سماج پارٹی کے 6، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے 5، ڈی ایم کے کے 4، راشٹریہ جنتا دل کے 3، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے 3، انڈین نیشنل لوک دل، انڈین مسلم لیگ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، کیرل کانگریس، جنتا دل سیکولر اور وائی ایس آر کے ایک ایک ممبران پارلیمنٹ کوملاکر76ممبران ہوتے ہیں۔یہ ایک بڑا بلاک ہے جو جی ایس ٹی پر حکومت کو حمایت دینے کو تیار ہے۔ان علاقائی پارٹیوں کے ذریعہ جی ایس ٹی کی حمایت کرنے کے پیچھے وجہ بالکل واضح ہے کیونکہ اس سے ٹیکس میں حصہ داری نہ صرف بڑھے گی بلکہ اسے لے کر وضاحت بھی آئے گی۔خاص طور سے صارف ریاستوں میں جی ایس ٹی کے لیے زیادہ حمایت ہے۔اب بائیں بازوکی جماعتیں بھی کھل کر جی ایس ٹی کی حمایت میں آ گئی ہیں۔کیرالہ کے وزیر اعلی پنا رائی وجین اور ریاست کے وزیر خزانہ تھامس ازاک نے جی ایس ٹی کی حمایت کی ہے۔سی پی ایم لیڈر محمد سلیم نے بھی کہا ہے کہ ان کی پارٹی کانگریس کے ساتھ نہیں ہے۔اگر حکومت ایوان میں یہ اعتماد دے کہ ٹیکس کی شرح کو کم رکھا جائے گا تو ان کی پارٹی جی ایس ٹی کی حمایت کرے گی۔حکومت کا موقف بھی یہی ہے۔ایسے میں لیفٹ پارٹیوں کے9یعنی سی پی ایم کے8اور سی پی آئی کے ایک رکن کی حمایت بھی حکومت کو مل گئی ہے۔آل انڈیا ڈی ایم کے (اے آئی اے ڈی ایم کے) کے 13ممبران پارلیمنٹ ہیں۔تمل ناڈوکی وزیر اعلیٰ جے للتا نے14؍جون کو دہلی میں وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی اور جی ایس ٹی پر اپنا احتجاج درج کرایاتھا۔حکومت اے آئی اے ڈی ایم کے کو ساتھ لینے کے لیے کچھ ترامیم پر غور کر سکتی ہے۔